میرے والد نہایت سخت گیر ہیں بچپن میں ہم سب بہن بھائی ان سے بے حد ڈرتے تھے۔ جب وہ گھر میں ہوتے سب مختلف کمروں میں دبک جاتے اور کسی کو شور مچانے یا صحن میں نکلنے کی ہمت نہ پڑتی۔اس ڈر اور خوف نے میرے ذہن میں ایسی جگہ پائی کہ میں اب تک کوشش کے باوجود اس سے نجات حاصل نہیں کر سکا۔پرائمری اسکول میںہمیشہ اپنی جماعت میں اول آتا ۔باقی لڑکے تفریح کے وقت کھیل کود میں مشغول ہوتے لیکن میں اس خوف سے کلاس میں دبکا بیٹھا رہتا کہ کہیں کسی ماسٹر کی نظر نہ پڑ جائے یا شرارتی لڑکے میری پٹائی نہ کر دیں۔ہائی سکول میں پہنچا تو ہر وقت کی سوچ بچار اور خوف سے صحت خاصی کمزور ہو چکی تھی ۔جی جی میں اپنی اس کمزوری پر کڑھتا رہتا ۔صحت مند اور ہنستے کھیلتے لڑکوں کو دیکھ کر جل جاتا اور سوچتا کاش!میں بھی انہی جیسا ہوتااس احساس محرومی نے رفتہ رفتہ مجھے احساس کمتری میں مبتلا کر دیا۔باتیں کرتے ہوئے الفاظ منہ میں اٹک جاتے اور میں ہکلانے لگتا۔اسکول سے نکل کر کالج میں پہنچ گیا ہوںلیکن احساس کمتری کی بدولت ساری ذ ہنی اور جسمانی صلاحیتیںکند ہو چکی ہیں۔زندگی سے نفرت ہو گئی ہے۔اکثر سوچتا ہوں میرے مرنے کی خبر جب بہن سنے گی تو اس کی کیفیت کیا ہو گی ۔بھائی کو معلوم ہو گا تو وہ کیا کرے گا؟والدہ اور والد کا کیا حال ہو گا؟کالج میں لڑکے سنیں گے تو ان کا رد عمل کیا ہو گا؟تو کون کون روئے گا اور بین کرے گا۔۔۔۔۔؟ان بے سروپا خیالات اور تفکرات سے نہ صرف صحت خراب ہو چکی ہے بلکہ حافظہ بھی جواب دیتا جا رہا ہے کوشش کر کے سبق یاد کرتا ہوں مگر اگلے ہی لمحے وہ بھول جاتا ہے ۔آپکے مشورے کا منتظر ہوں۔خدا کیلئے مجھے اس ذہنی دوزخ سے نجات دلائیے۔(ا۔ک۔ش۔لاہور)
جواب:۔ آپ نے جن خیالات کا اظہار اپنے خط میں کیا ہے ان کا مقصد یہ ہے کہ آپ دوسرے لوگوں کی ہمدریاں چاہتے ہیں۔اسی جذبے کے زیر اثر آپ کے تخیلات آپ کو دور دورلے جا رہے ہیںلیکن اسے ایک اہم مسئلہ خیال کرنا درست نہیںیہ تو ایک طرح کا طریقہ ہے جس سے دبے ہوئے جذبات جو صحت کے لئے مضر بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔خارج ہو جاتے ہیں!البتہ یہ مسئلہ صرف اسی وقت بنتا ہے جب ایسے خیالات بہت زیادہ شدید ہوں اور جوانی کے عالم میں بھی موجود رہیں آپ خود دیکھیں گے چند سال بعد اس قسم کے خیالات آپ کو مطلق نہیں ستائیں گے۔نوجوانی کے عالم میں اس طرح کیFANTASIESکوئی تعجب کی بات نہیں۔یہ صرف اس بات کی علامت ہے کہ آپ اپنے والد کے رویے کی شکایت کر رہے ہیں۔اپنی تعلیمی کیفیت کو معمول پر لانے کیلئے مطالعے کے درست طریقے استعمال کیجئے۔مطالعے کے طریقوں کا ذکر میں وقتاً فوقتاً انہی صفحات میں کر چکا ہوں۔اس کا اولیں اصول باقاعدگی ہے۔اگر آپ وقت مقررہ پر مطالعہ شروع کریں اوراپنا بیشتر وقت درسی کتابوں کے پڑھنے اور پھر خود ان سے نوٹس لینے میں صرف کریں۔تو آپ کے پریشان کن خیالات خود بخود بغیر کسی زحمت کے جاتے رہیں گے۔ذہن پریشان تبھی ہوتا ہے جب وہ غیر مصروف ہو۔مصروف رہنے کی صورت میں نہ خیالات تنگ کرتے ہیں۔اور نہ ہولناک خواب نظر آتے ہیں۔یہ یاد رہے کہ آپ کے لئے صرف مطالعہ ہی ضروری نہیں بلکہ کھیل کود میں حصہ لینا بھی نہایت اہم ہے۔اس طرف سے بھی غفلت نہ برتیے اپنے جسم اور دماغ دونوں سے کام لیجئے اور پریشان کن خیالات کو اپنی شخصیت پر مسلط ہونے کا وقت ہی نہ دیجئے۔آپ گفتگو میں بھی صرف انہی خیالات کی وجہ سے اٹکتے ہیں ۔ورنہ اور کوئی خاص بات نہیں۔
نوجوانی کی عمر میں خوراک کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اس نشو نما کے زمانے میں ایسی غذا درکار ہے جس سے جسمانی توانائی میں مدد ملے۔اس سلسلے میں کسی ڈاکڑ سے مشورہ کرکے اس کی ہدایات پر پوری طرح عمل کیجئے ڈاکڑی معائنے کے اور بھی بہت سے فائدے ہیں۔جن سے آپ بے خبر نہ ہوں گے۔بعض اوقات اس سے کسی ایسے معمولی نقص کا بھی پتہ چل جاتا ہے جو عموماًنظروں سے اوجھل ہوتا ہے۔لیکن انسان کی شخصیت کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔آپ نے اپنے والد صاحب کی سخت گیری کی شکایت کی ہے ۔اس سلسلے میں سب سے پہلے یہ بات جان لینی چاہیے کہ اس عمر میں نہ تو پرانی عادت جاتی ہے اور نہ آپ اس حد تک جانے کی جرئات کر سکتے ہیں کہ انہیں اس سے متنبہ کریں۔اب تو آپ کو یہ تمام حالات بطور حقیقت تسلیم کرنے ہوں گے اور آہستہ آہستہ ان سے مانوس ہونا پڑے گا۔ممکن ہے آپ کے خیالات اور ان کے خیالات میں بہت فرق ہو۔کوشش کیجئے کہ کسی ایک معاملے میں جہاں اتفاق رائے ہو آپ ان کے قریب آئیں۔احترام اپنی جگہ پر ہے، لیکن ان کے قریب آنا اور ان کے خیالات سے مستفید ہونا بھی ضروری ہے۔ پھر یہ بھی تو ایک تلخ حقیقت ہے کہ نئی نسل اور پرانی نسل میںاقدار کے لحاظ سے بہت بڑا فرق پیدا ہو گیاہے۔آپ جسے سخت گیری کہتے ہیںوہ ان کے نزدیک اخلاقی نقطہ نظر سے نظم و ضبط (ڈسپلن)کے مترادف ہو۔ یاد رکھئے ایسے لوگ بہت زیادہ آزادی کو پسند نہیں کرتے اور اس بنا پر نوجوان اپنے والدین کو سخت گیر اور معلوم نہیں کن کن القاب سے نوازتے ہیں۔وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ ان کی بہتری کی خاطر ہے۔
عزیزم!آپ کے شاندار مستقبل کے پیش نظر یہ مشورہ دینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ آپ اس گھریلو ماحول سے فرار حاصل کرنے کے بجائے اپنے آپ کو اس کے موافق بنانے کی کوشش میں مصروف رکھئے۔اس طرح اپنے ابا جان کو دوست سمجھ سکیںگے اور اپنی پریشانی اور مایوسی کو خیر باد کہہ سکیں گے۔
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 311
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں